حوزہ نیوز ایجنسی| ماہنامہ ’ نیادور ‘کا ” انیس نمبر“وہ یادگاری شمارہ ہے جس میں ہر زاویہ سے ایک آفاقی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مضامین و مفاہیم ہوں کہ شعر و سخن کی جلوہ ریزیاں اعلیٰ قدروں کی حامل نظر آتی ہیں یوں تو ”نیادور “کو بہت سے استاد شعراء کے نمبر شایع کرنے کا فخر حاصل ہے جو اپنی اپنی جگہوں پر اردو ادب کے بیش قیمت جواہر پارے ہیں۔ مگر خدائے سخن ”میرانیس نمبر“ وہ عظیم شمارہ ہے جس ے آنے والی نسلیں بھی لازمی طور پر مستفیض ہوں گی ۔ انیس کی مرثیہ گوئی میں دیکھاجائے تو ہر صنف سخن کا امتراج ملتا ہے ۔ مرثیہ جس کا شمار اہم اصناف سخن میں نہیں تھا مگر خدائے سخن میر انیس نے اس کا معیار اتنا بلند و بالا کر دیا کہ دنیائے ادب کے علماء و شعراء اور دانشوران اردو کو اس کی اہمیت و عظمت کا لو ہا ماننا پڑا ۔
انیس کے مراثی اگر ایک طرف غم و الم ، رنج و محن ، کرب و اندوہ کے غماز ہیں تو دوسری طرف نظم و تغزل سلام و منقبت کے حسن کے آئینہ دار بھی ، جس میں تاریخی حقائق کے ساتھ روایت و درایت کی روشنی میں واقعات کربلا کی المیہ تصویر کشی اس طرح سے کی گئی ہے جیسے آنکھوں دیکھا حال ہو ۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے مرثیہ خوانوں کی دو پشت گزر چکی ہے ۔ مگر ہر مجلس کا آغاز انیس ہی کے مرثیہ سے ہوتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے ۔ ان کی زبان و بیان، لفظوں کی تزئین کاری ، فکر و فن کی بلند پر وازی کا پتا دیتی ہے ۔
چونکہ علم و فن کی یہ دولت آپ کی خاندانی وراثت رہی ہے ۔ اس لیے آپ نے اپنے فصیح و بلیغ کلام کو حد کما ل پر پہنچا دیا ہے ۔ جس میں پو ری کر بلا سمٹی ہوئی ہے ۔ آپ کا مو ضوع سخن معرکہ آرائی ہو کہ فن سپہ گری ، شجاعت ہو کہ جلا لت ، ترتیب لشکر ہو کہ علمداری ، اسلحے ہوں ، غربت و بیکسی ہو کہ مظلومیت ، جذبہ ایثار و قربا نی ہو کہ سر فروشی کی تمنائیں ، تشنگی ہو کہ بھائی بہن کی محنت ، رخصت کا منظر ہو کہ ماو ¿ں کی تڑپ سبھی مو ضوعات کو جس مہا رت کے ساتھ آپ نے قلمبند کیا ہے پڑھ کر یوں محسوس ہو تا ہے جیسے آپ بھی اسی کا ایک حصہ رہے ہوں ۔ مر ثیہ گوئی میں جو قدرت آپ کو حاصل تھی وہ صدیوں کے بعد بھی کسی اور میں نہیں ملتی ۔ جیسا کہ پا کستان کے مشہور خطیب مولانا ضمیر اختر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اللہ نے انسانی شکل میں دو فر شتے اودھ میں بھیجے جن کے مراثی صدیوں سے ہندو پاک میں گھر گھر پڑھے او رسنے جاتے ہیں ۔ ان کی مراد میر انیس اور مرزا دبیر ہے ۔ مو صوف کا علمی مو اد سے پر مقالہ میر انیس کی لکھنو ¿ سے محبت کو ثابت کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس شعر کی نفی بھی کرتا ہے ۔
کوفہ سے مل رہے ہیں کسی شہر کے عدد
ڈرتا ہوں اے فلاں کہیں لکھنؤ نہ ہو
ماہنامہ نیا دور کے ” انیس نمبر“ کے مطالعہ کے بعد اس با ت کا احساس ہوا کہ یہ وہ شاہکار ہے جو عہد رفتہ اور مستقبل میں اہل سخن کے لیے مشعل راہ اور قائین کے لیے معلومات کا ایسا ذخیرہ ہے جس میں فکر وفن کے گو ہر بے بہا موجود ہیں ۔ اردو ادب کا وہ نا در و نا یاب تحفہ ہے جس سے زمانہ کسب فیض کرتا رہے گا۔
عہد ماضی میں شاہد ہی میر انیس پر اتنا عظیم علمی و ادبی شاہکار منظر عام پر آیا ہو۔ یہ رثائی جریدہ اپنی نو عیت کا بے نظیر اور اردو ادب کا بے مثل رسالہ ہے،جو ہر شائقین ادب کے لیے پسندیدگی کا سبب ہے ۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہر ماہ بے صبری سے عشاق ادب و ثقافت کو نیا دو ر کا انتظار رہتا ہے ۔ ایڈیٹر ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی کی یہ عظیم کاوش واقعاً لائق صد افتخار ہے۔ انہوں نے رسالہ کی اشاعت میں بڑی دقتوں کا سامنا کیا ہے۔ جیسا کہ وہ خود اپنی بات میں رقمطراز ہیں۔
” اس کام کو انجام دینے میں بڑی جگر کا وی اور دماغ سوزی کرنی پڑی ، چونکہ ”نیادور“ ایک سرکاری رسالہ ہے اور آپ یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ سرکارکی کفالت میں نکلنے والے رسائل و جرائد میں مدیران کو کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص کسی نمبر کی اشاعت یہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ میر انیس نمبر سے پہلے بھی میں نے بہت سے خا ص نمبر نکالے ہیں لیکن ان میں مجھے اتنی دشواریوں کا سامنا کرنا نہیں پڑا جتنا اس نمبر کی اشاعت میں مجھے دشواریاں پیش آئیں۔“
یقینا اس نمبر کی اشاعت میں انہیں بہت دشواریاں پیش ہوں گی۔ واقعاً یہ کام از حد مشکل ہے لیکن کو شش اور محنت شاقہ سے کیا کچھ ممکن نہیں ہے۔ ہمت مر داں مدد خدااست۔
جناب علی احمد دانش کا مضمون ” واجد علی شاہ اور میر انیس “ غذر 1857کے تنا ظر میں جو قارئین کی نذر کیا ہے ،اس میں اودھ کے مشہور مقامات کا تذکرہ بحسن و خوبی کیاگیا ہے ۔ اس مضمون کے اندر دلچسپ اورجاذب نظر تصاویر ’واجد علی شاہ کا عزا خانہ قصر العزاء‘،’ عظیم مجاھدہ آزادی بیگم حضرت محل کی تصویر‘،’نواب باقرعلی خان رئیس شیش محل لکھنو ¿ کے بارے اہم معلومات ، میر انیس کا شجرہ ، میر انیس کے مر ثیہ کے چار بند جو ان کی تحریر کردہ ہیں ا س کا عکس دیکھ کے دل خوش ہو گیا ۔ میر انیس کا بذات خود تعمیرکرایا ہوا مقبرہ ،میر انیس کے نواسے میر علی عارف کی تصویر وغیرہ ایسی تصاویر ہیں جو صرف اسی خصوصی شمارہ میر انیس نمبر کے توسط ہی سے قارئین تک پہنچیں یہ نیادو ر کے لیے فخر کا مقام ہے ۔
ڈاکٹر سید مشتاق حسین نے اپنے مضمون کے ضمن میں ’ خدائے سخن علامہ میر انیس کی قیام گاہ، کوچہ میر انیس اور ا س کے ماحولی تضادات نا ولی اور منظرنگار ی کے انداز میں پیش کیا ہے قارئین کی نظرمیں وہ سارے منظر ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں ، صدر دروازہ پر روسی اسکالر کے ساتھ خلف میر عارف سید محمد ہادی لائق کی 1962کی تصویر ، کو چہ میرا نیس کا تختہ ،بڑا مکان اور بغیا ،کوچہ میر انیس اور وقوع اور حدود اربع کے توسط جو نقشہ پیش کیا گیا لاجواب اور بے مثل ہے ۔ لازمی طور پر تمام قارئین اس کو بے حد پسند فرمائیں گے ۔ میر انیس ہاو ¿س ( بڑا مکان کی زمینی منزل صحن ، حوض ، ڈیوڑھی وغیرہ کا خاکہ بہت دلچسپ ہے اور دل کوبا غ با غ کر دینے والا ہے ۔ انیس کے مکان کا اندرونی حصہ اور شیشے کا مع سائبان ، قبرستان میرانیس اس کھجور کے درخت کے ساتھ جسے میر صا حب کے بھائی میر نو اب مونس نے کربلا عراق سے لا کر لگایاتھا‘ کی تصویر ، خاندان انیس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی نہج ، تربیتی و تعلیمی مراحل ، زبانی سکھائے جانے کا جدول وغیر ہ ایسے نایاب تحفے ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔
’میر انیس نمبر ‘اس اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہے کہ اس میں ہندوپاک کی ذی علم اور باعظمت شخصیات نے اپنے رشحات قلم سے خوب سے خوب تر معلومات کا خزانہ پیش کیا ہے۔ خاندان انیس کی عظیم ادبی شخصیت علی احمد دانش کے مختلف گوہر نایاب مضامین نے اس شمارہ کی ادبی رفتار میںمزیداضا فہ کردیا ہے۔
ڈاکٹر مظفر سلطان ترابی نے ’انیس کے کلام میں تاریخ اسلام ‘کا تاریخ اسلام پر مضبوط گرفت کو سمجھایا ہے۔ انہوں نے جا بجا میر انیس کے اشعار کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ انیس اس نا بغہ روزگار شخصیت کا نام ہے جس نے تاریخ اسلام کو منظوم شکل دی اور واقعات کا ایسانقشہ کھینچا ہے کہ مطالعہ سے پورا واقعہ نظر وں کے سامنے پھر جا تا ہے۔
”میر انیس از دید گاہ بزرگان “ کے عنوان سے ہمراز جعفر ی ( مولانا محمد رضا مبارکپوری ) کا مضمون تحقیقی و تنقید دونوں نظریہ کا مجمو عہ ہے۔ جس میں راقم الحروف نے بزرگان کے قول سے جو استنباط پیش کیا ہے وہ دیگر قلمکار کے مشعل راہ اورمستحکم ثبوت ہے ۔ زبان و بیان کے حوالے سے مولانا رضا ایلیامراثی میں جو میر انیس جو زبان استعمال کی ہے ان کے گھر کی زبان تھی دعوی تو بہت سنا تھا مگر جو انہوں نے مولانا آزاد کے قول کو دلیل میں پیش کیا ہے وہ بہت ہی لا جواب اور عمدہ اہل لکھنو ¿ کے لیے سبق آموز ہے ۔ میر انیس کی آخری قیام گاہ کے ضمن میں جو باتیںاپنے مضمون میں پیش ہیں وہ بھی اہم معلومات ہے ۔۔ المختصر مضمون کے مطالعہ کے بعد اس بات کا احساس ہوا مولانا نے مضمون لکھنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے ۔
”میر انیس اور عالم انسانیت “میں آیت اللہ سید حمید الحسن نے رسالہ کو ایک انسانی پیغام دیا ہے کہ اچھا انسان وہی ہے جو دوسروں کا درد سمجھے اور یہ جب ہی ممکن ہے جب وہ وحشی انسانوں سے نفرت کرے اور مظلوموں سے محبت رکھے۔ ”انیس کے مرثیہ میں علم الا عداد “ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد تقی علی عابدی کی تحریر بہت ہی عمدہ اور منفرد انداز پرمنحصر ہے ۔ تحقیقی کام ہے، ایسے مضمون لکھنے کے لیے محنت شاقہ کی ضرورت ہو تی ہے ۔ مو صوف ہر اعتبار اپنے مضمون میں عنوان کے اعتبارے پورے کھرے اترے ہیں ۔
” یہاں بھی قاری و سامع کے لیے ذہنی ورزش کی ضرورت ہے کہ آخر ماہ دوہفتہ سے کیا مراد ہے ۔ ذراغور کریں ۔ یعنی سات دن دو ہفتہ یعنی ........کا نور ہمیشہ دلوں میں با قی رہے ۔ “ میں جس انداز ثابت کیا ہے واقعاً بے حد دلچسپ اور تحریرکے اختتام تک قاری کی توجہ بر قرا ررہتی ہے ۔ اللہ کرے زور قلم اور ہو زیا دہ ۔ جناب سید باقر حسین نے ” کلام انیس میں صنعت غیرمنقوط ‘ جس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرائی ہے اس قاری کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے ۔ میرانیس کی مناجاتیں جو انہوں نے علالت کی حالت میں رقم کیں اس میں الفاظ کے ذخیرے موجود ہیں جس سے صاحب ذی فہم ہی لطف اندوز اورمستفید ہو سکتا ہے ۔ الغرض رسالہ میں موجود تمام مضامین نہایت دلچسپ ، تحقیقی اور اپنی نو عیت کے منفرد قلمی آثار ہیں اور برصغیر کی قدر آور شخصیتوں نے اپنے قلمی کا وش سے اس رسالہ میں چارچاند لگا دیئے۔ آخر کلام میں یہ بات عرض بے جاں نہ ہو گاکہ اس قسم کے رسالہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔